Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat
Pehchaan Aashkaar Kartay Safar Kay Geet
پہچان آشکار کرتے سفر کے گیت
جدید دوَر کے آغاز (۱۸۹۰ تا ۱۹۲۰) کے زمانے سے اب تک کے سو سالوں میں معیشی مہاجر تیسری دنیا کے ملکوں سے ترقی یافتہ ممالک میں ہجرتیں کر کر کے جاتے رہے ہیں۔
فہمیدہ ریاض کی طویل نظم ’’ کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے ‘‘ میں اِن ہجرتوں کا مرثیہ بھی گایا گیا ہے۔ ہر معیشی مہاجر کو (جو اپنے کنبے کی روزی روٹی اور بہتر مستقبل کے لئے معیشی ہجرت کرنے پر مجبور ہوتا ہے) بالآخر ایک دوراہے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سوال اُسے آ گھیرتا ہے۔
کیا وُہ اپنے وطن واپس جا سکے گا اَور اپنی پہچان کو پا سکے گا یا یونہی اپنے نئے دیس میں ایک گمنام جیون کے خلأ میں سانس لیتے لیتے دنیا سے رُخصت ہو جائے گا ؟
اپنی دھرتی کی مہک ہم سب کو ستاتی ہے اَور بالآخر ہمیں واپس اپنے وطن کھینچ لے جاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے اہم ادبی ناولوں کے آخیر میں زندگی کے اِس اہم اَور پہچان بخشتے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ڈی۔ ایچ۔ لارنس کے ناول ’’سنز اینڈ لورز‘‘ کے آخری پیراگراف میں ہیرو اپنی پہچان کو پانے کے لئے زندگی کے سفر پر چل نکلتا ہے۔ اِسی طرح میکسم گورکی کی عظیم آپ بیتی کے تیسرے اور آخری حصہ کا عنوان ’’زندگی کی شاہراہ پر‘‘ ہے۔ اے۔ حمید کے ناول ’’ڈربے‘‘ اور عبداللٰہ حسین کے ناول ’’اَداس نسلیں‘‘ کا اختتام بھی ایک نئے سفر کے آغاز پہ ہی ہوتا ہے۔
Shakeel Badayuni writes of a cross roads reached in one's life, new decisions made and new paths chosen.
Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat