Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat
Sara Shagufta (1954 - 1984)
Modern Urdu Feminist Poet
نظم ۔ ۔ ۔ اَے میرے سر سبز خد ا
منتخب سطریں
سارا شگفتہ
سنہ 1954 گجرانوالہ تا سنہ 1984 کراچی۔
مسلسل گھریلو تشدّد سے گھائل ہو کر بالآخر خود کُشی کرنے پر مجبور کی گئی ایک جدید اُردو شاعرہ
بیَن کرنے والوں نے مجھے
اَدھ کھُلے ہاتھوں سے قبول کیا
میَں اپنی نگرانی میں رہی
اور کم ہوتی چلی گئی
کُتّوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بھوُل گئے
میَں ثابت قدم ہی ٹوُٹی تھی
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اَے میرے سر سبز خُدا
خزاں کے موسم میں بھی
میَں نے تجھ کو یاد کیا ۔ ۔ ۔
سارا شگفتہ (31 اکتوبر، سنہ 1954 تا 4 جوُن سنہ1984)
سارا شگفتہ سنہ 1954 میں پنجاب کے شہر گُجرانوالہ میں ایک مفلس اور ان پڑھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کی والدہ گجرانوالہ سے کراچی آن بسیں۔ کنبے کی غربت کے باعث سارا میٹرک کا امتحان نہ دے سکیں۔ سنہ 1968 میں مفلسی کے ہاتھوں مجبور والدہ نے چودہ سالہ سارا کی شادی کر دی۔ سارا کا پہلا خاوند سارا کو شدید گھریلو تشدّد کا نشانہ بناتا تھا۔ تنگ آ کر سارا نے اُس سے طلاق لے لی۔ سنہ 1970 کی دہائی میں سارا کی رسائی کسی نہ کسی طرح کراچی کے اردو ادبی حلقوں تک ہو گئی۔ شاید اِس رسائی کا وسیلہ اُس وقت کی مشہور نسوانی حقوق کی علم بردار اور سندھی شاعرہ عطیہ داؤد سے سارا کی دوستی ہو ۔ ۔ ۔ یہ صرف میرا اپنا قیافہ ہے ۔ بہر حال سارا نے ادبی محفلوں میں شرکت کرنا اور شاعری میں اپنی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ سارا کی جان پہچان اُس وقت کے اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر احمدجاوید (حمزہ نامہ کے خالق) سے ہوئی اور سارا نے جاوید سے شادی کر لی۔ جاوید کی دلچسپی شاعری اور اپنے ادبی دنیا کے دوستوں کے ساتھ ادبی بحث مباحثوں میں جنون کی حد تک تھی اور وُہ سارا کو اور حمل کے دوران سارا کے ہونے والے بچے کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ زچگی کے وقت سارا اکیلی تھی اور اُس نے ایک مُردہ بچے کو جنم دیا جس کی تدفین کے لیے اُسے کسی سے قرض لینا پڑا۔ جیسے تیسے گھر پہنچنے پر جاوید اور اُن کے دوستوں کو مُردہ بچے کی خبر سنانے پر منڈلی میں تھوڑی دیر ایک خاموشی طاری ہوئی اور پھر جاوید احمد دوستوں سے ادبی بحث میں یوں مشغول ہو گئے جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں۔ احمد جاوید سے طلاق کے بعد سارا نے کراچی کے دو اور ادبی مشاہیر سے شادیاں کیں، قیصر منوّر سے اور افضال احمد سیّد سے ۔
کراچی کے ادبی حلقوں میں یہ ایک کھُلا راز ہے کہ سارا کے سبھی شوہروں نے اُسے مسلسل اذیت اور گھریلو تشدّد کا نشانہ بنایا۔ اِس مسلسل اذیت کی وجہ سے سارا کو ذہنی مریضوں کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا جہاں اُسے بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے صحت یاب کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنرل ضیا ء کے مارشل لاء کے دور میں سنہ 1980 کی دہائی کے شروع میں سارا کو گرفتار کیا گیا اور لاہور قلعے کے تہہ خانوں میں بنائے گئے بدنام ترین اذیت خانے میں چالیس دنوں تک درندگی اور بہیمانہ اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس کی شنوائی آج تک نہیں ہوئی مگر شاید روز ِ حشر ضرور ہو گی۔ زندگی کے 29 سالوں میں صدیوں کی اذیت برداشت کرنے والی اُبھرتی ہوئی نسوانی حقوق کی جدید شاعرہ سارا شگفتہ نے سنہ 1984 میں ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ کر اپنی جان قربان کر دی۔
اپنی خودکشی سے پہلے لکھے گئے ایک خط بنام عطیہ داؤد میں سارا لکھتی ہیں
عطیہ داؤد (سندھی شاعرہ) کے نام سار ا شگفتہ کا خط
----(اصل متن میں سے کچھ کتر بیونت کے بعد)
عطیہ ۔ ۔ ۔ میَں زندگی کو اپنے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر دیتی رہی
پیاری دوست تمہیں کیا دوں۔ ۔ ۔
دیکھو ۔ ۔ ۔ میرے اسباب میں نہ روح ہے نہ کوئی بدن
میں آج اذیت میں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ اذیت جو کنواریوں کا لازم ہے
وہ اذیت جو کہ سانپ چال بن کر میرے بدن پر رہ جائے گی ۔ ۔ ۔ وقت پہ رہ جائے گی ۔ ۔ ۔
تمہارے دل میں ایک ٹھٹھری ہوئی اور گرد آلودہ سانس کی طرح ۔ ۔ ۔
آؤ اپنی اپنی چتا کے گیت لکھیں اور آگ کو گانے دیں اپنی پوری خاموشی کے ساتھ
میں کیا ہو گئی ہوں۔ ۔ ۔
آؤ اپنے اپنے انگاروں کے بجھنے تک تو جئیں
لیکن لگتا ہے ---- زندگی ہمارے کھلونے کبھی نہ توڑ سکے گی
البتہ یہ کھلونے ہمیں ضرور توڑ چکے ہیں
یہ ٹوٹے کھلونے عطیہ آدھے میرے بچوں کو اور آدھے سعید کو دے دیں
آنے والے کل میں میَں بھی بک شیلف میں تمہیں ملوں گی اور تم بھی بک شیلف میں سجی ملو گی
سارا شگفتہ
From Wikipedia's article about Sara Shagufta:
Sara Shagufta (31 October 1954– 4 June 1984) was an iconic modern Urdu feminist poet belonging to Pakistan. She wrote poetry in Urdu and Punjabi languages. She was from a very poor family and her mother, out of desperation and poverty, got her married three times, starting with her first marriage at the age of 14. All of her husbands neglected her emotional needs, deprived her financially and beat her up regularly and mercilessly. She lost her first child due to malnutrition and lack of medical care since her husband was too involved in literary pursuits with his male poet friends and did not care about her pregnancy at all. Her later husbands were no different. Repeated physical assaults affected her mental state and she was admitted to a Mental Hospital where she was subjected to electric shock therapy. During the 1980s Pakistani Martial Law years of brutal military dictator General Zia ul Haque she was imprisoned for 40 days in the notorious torture center of Lahore city's Mughal Fort dungeons. In 1984, she committed suicide by throwing herself before a passing train in Karachi.
Sara was born on 31st October 1954 in the small but well known city of Gujranwala, Pakistan in a lower-class family. Sara's family migrated to Karachi from Punjab during the partition of India. Belonging to a poor and uneducated family, she wanted to rise socially but could not pass her High School exam.
When she was 14, her mother was forced by her poverty to get Sara married off to an abusive husband. This was later followed by a divorce and three other similarly disastrous marriages from which she had three children.
She was admitted to a mental hospital as she was suffering from mental illness due to repeated severe beatings from her various husbands and in-laws. After an unsuccessful suicide attempt, she committed suicide at an early age of 29, on 4 June 1984, around 11 PM, by throwing herself before a train passing from Drigh Colony railway crossing in Karachi.
Sara Shagufta's collections of poetry was published posthumously as
Aankhein and
Neend Ka Rang
These two collections were published by Saeed Ahmed, a person she was in love with.
Asad Alvi translated her poetry into English and published as The Colour of Sleep and Other Poems (2016).[3]
Indian author Amrita Pritam, also a close friend of Sara, wrote two books based on the life and works of Sara; Ek Thi Sara (1990) and Life and Poetry of Sara Shagufta (1994).
Main Sara ( I am Sara), a play written by Shahid Anwar, is based on the life of Sara.[4]
Sara Ka Sara Aasman, another play written by Danish Iqbal and directed by Tarique Hameed, is also based on the life of Sara. Based on Amrita Pritam's books on Sara, the play was presented by Wings Cultural Society at All India Radio's Urdu Theatre Festival in 2015.[5][3]
Amṛtā Prītama (1994). Life and Poetry of Sara Shagufta. Delhi: B.R. Publishing Corporation. ISBN 978-81-7018-771-4.
Amrita Pritam (1990). Ek thi Sara. New Delhi: Kitabghar Publication. OCLC 33810599.
Asad Alvi translated her poetry into English and published as The Colour of Sleep and Other Poems (2016)
Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat