ساغر صدیقی
اصلی نام محمد اختر؛
سنہ 1928 تا 1974؛ 46 سال کی عمر میں وفات
لاہور کے ایک جدید اُردو شاعر ۔ ۔ ۔ لڑکپن انبالہ اور سہارن پور مشرقی پنجاب، برٹش انڈیا ۔ ۔ ۔ کھاتے پیتے گھرانے کے واحد فرزند ۔ ۔ ۔ ماں باپ نے گھرانے کے ایک قریبی دوست حبیب حسن کو اتالیق مقرر کیا تاکہ بیٹا گھر ہی میں رہ کر تعلیم پائے۔ لڑکپن ہی سے ساغر نے شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ گھر والوں سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ کر امرتسر چلے آئے اور لکڑی کی کنگھیاں بنا کر گزارا کرنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ سنہ 1944 سے، سولہ برس کی عمر میں، امرتسر، جالندھر،لدھیانہ اور گُرداس پور میں اردو مشاعروں میں شعر پڑھنا شروع کر دیے اور جلد ہی مشہور ہو گئے۔ سنہ 1947 میں 19 برس کی عمر میں پاکستان بننے پر ہجرت کر کے لاہور میں آن بسے۔ ایک ادبی جریدہ نکالا جو تجارتی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔ کسی ذاتی نوعیت کی واردات یا حادثے نے ساغر کو عین نوجوانی میں، اُن کی حسّاس طبیعت کی بدولت، نفسیاتی دباؤ اور طبّی نوعیت کی پژمردگی
میں مبتلا کر دیا ۔ ۔ ۔ اُن دنوں نفسیاتی دباؤ یا ڈیپریشن کے مرض کا کوئی خاطر خواہ علاج ممکن نہیں تھا۔ لیبر لیڈر اور افسانہ نگار قمر یورش اپنے ادبی خاکہ نگاری کے مجموعے یاران ِ مے کدہ میں ساغر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک جاننے والے نے ساغر کو لاہور کے پاگل خانے میں داخل کروانے کے لیے درخواست دی اور چالاکی سے ساغر سے اُس پر دستخط بھی کروا لیے۔
نفسیاتی دباؤ کے باعث ساغر نے نشے کا سہارا لیا ، قلاش ہو گئے، سڑکوں پر بے گھر فقیر کی زندگی اپنا لی، ہسپتال کے چپڑاسیوں سے مارفین لے کر استعمال کرنے لگے اور دن رات لاہور کی سڑکوں پر آوارہ گھومنے لگے
مجھے 1967 کا اپنے بچپن کا واقعہ یاد ہے جب ہم لاہور اندرون شہر کے محلے کوچہ پیر شیرازی ، لوہاری دروازہ، میں ایک کئی منزلہ عمارت کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اچانک رات 12 بجے کے قریب عمارت کے صحن سے جھگڑے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے والد نیچے گئے تو معلوم ہؤا کہ ہماری عمارت کے کچھ مکینوں نے ایک فقیر کو گھیرا ہؤا ہے جو گلوُ گیر آواز میں بلند آواز سے اعلان کرتا جا رہا ہے
"میَں نے حُسین کے نام کی پی ہے"
میرے والد نے اُس فقیر کو پہجان لیا ۔ ۔ ۔ وُہ ساغر صدیقی تھے ۔ ۔ ۔ میرے والد نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور ساغر صدیقی اندرون شہر کی اُن خوبیدہ گلیوں کی تاریکی میں گُم ہو گئے ۔ ۔ ۔