Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat
Saltanat Qaiser is a Pakistani poetess who belongs to a literary family. Her father, Nazir Qaiser, is a well known Urdu poet in Pakistan. She grew up in Lahore, Pakistan and currently resides in Toronto, Canada. Her Urdu ghazals have a smoldering passion hidden beneath apparently simple words and a short poetic meter as well as a freshness, a new way of looking at personal love in current Pakistani, male dominated society which makes reading her Urdu ghazals utterly captivating.
"Ik Charaagh Behtaa Huaa" is her first collection of ghazals.
Dareechah is proud to present a selection of her published and unpublished Urdu ghazals here with her express permission.
Dareechah hopes for even greater creations to flow from her pen in future as her Poetic Art continues to blossom and enchant her readers. More selections of her poetry are available at her facebook account's Photo Albums.
شعری تخلیق کو بے باک اور بے لاگ ہونا چاہئیے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب شاعری اِتنی سچّی اور پُر خلوُص ہو جیسے خود کلامی ۔ ۔ ۔ جان سٹؤرٹ مِل نے سنہ 1833 میں اپنے مقالے شاعری کیا ہے؟ میں کیا خوب کہا تھا کہ شاعری ایک ایسی خود کلامی ہے جسے قاری نے سُن لیا ہو ۔ ۔ ۔
مگر ہم جذبے کی قدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ اِس لیے شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعری احساس کی نازکی اور محبّت کے جذبے سے یوُں سرشار ہو کہ شعر پڑھتے ہی قاری کو مسحوُر کر دے ۔ ۔ ۔
میَں جب بھی سلطنت قیصر کی غزلیں پڑھتا ہوُں مجھے ایک منفرد لہجہ جھلکتا نظر آتا ہے جو قاری کی توجہ شعر کی جانب بار بار مرکوُز کرتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ گُداز لہجہ خلوص لئے ہوئے ہے، گہرائی رکھتا ہے اور سُخن کی اُس کسوٹی پر پورا اُترتا محسوس ہوتا ہے جس کے مطابق اعلٰی شعر وہی ہے جسے پڑھتے ہی دل پر ایک چوٹ پڑے ۔ ۔ ۔
سلطنت قیصر کی شاعری پر میرا کالم میرے ورڈ پریس بلاگ نئی منزل، نئی راہیں پر پڑھا جا سکتا ہے ۔
میری مزید آراء غزلوں کے بعد اِسی صفحے کے آخیر میں درج کی گئی ہیں۔
Modern Urdu Ghazals of Saltanat Qaiser
سلطنت قیصر کی چند غیر مطبوعہ غزلیں ۔ ۔ ۔
سلطنت قیصر کی شاعری
تبصرہ : طلعت افروز۔
شعری تخلیق کو بے باک اور بے لاگ ہونا چاہئیے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب شاعری اِتنی سچّی اور پُر خلوُص ہو جیسے خود کلامی ۔ ۔ ۔ جان سٹؤرٹ مِل نے سنہ 1833 میں اپنے مقالے شاعری کیا ہے؟ میں کیا خوب کہا تھا کہ شاعری ایک ایسی خود کلامی ہے جسے قاری نے سُن لیا ہو ۔ ۔ ۔
مگر ہم جذبے کی قدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ اِس لیے شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعری احساس کی نازکی اور محبّت کے جذبے سے یوُں سرشار ہو کہ شعر پڑھتے ہی قاری کو مسحوُر کر دے ۔ ۔ ۔
میَں جب بھی سلطنت قیصر کی غزلیں پڑھتا ہوُں مجھے ایک منفرد لہجہ جھلکتا نظر آتا ہے جو قاری کی توجہ شعر کی جانب بار بار مرکوُز کرتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ گُداز لہجہ خلوص لئے ہوئے ہے، گہرائی رکھتا ہے اور سُخن کی اُس کسوٹی پر پورا اُترتا محسوس ہوتا ہے جس کے مطابق اعلٰی شعر وہی ہے جسے پڑھتے ہی دل پر ایک چوٹ پڑے ۔ ۔ ۔
اِس وقت سلطنت قیصر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ۔ ۔ ۔
تجھے مِلنا نہیں یہ بات طے ہے
مگر یہ بات اِمکانی رہے گی
اِس شعر کو پڑھ کر مجھے فہمیدہ ریاض کی شروع شروع کی نظموں میں سے ایک نظم "آخری بار" یاد آتی ہے جو شروع ہوتی ہے اِن سطروں سے
ہم جو یوُں پھر رہے ہیں گبھرائے
آخری بار اُن سے مِل آئے
اور جس کی آخری سطریں یوُں ہیں:
تھرتھراتے لبوں سے دے کے دُعا
عُمر بھر کے لیے وِداع کیا
مگر اب تک یہ سوچ ہے دل میں
اُن سے اِک بار اور مِل آئیں
خوبصورت اظہار لیے ہوئے سلطنت قیصر کی یہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ غزلیں میری نظر میں جدید اردو شاعری میں ایک نیا انداز ِ تحریر ہے ۔ ۔ ۔ ایک نیا اُسلوب ِ بیان ہے ۔ ۔ ۔
سلطنت قیصر کی غزلوں میں کچھ الفاظ بار بار روُ نما ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ جیسے بارش، آئینہ، درخت ۔ ۔ ۔ شاید یہ علامتیں ہیں ۔ ۔ ۔
درخت کا تصور اُن کے شعروں میں اپنے سبز پتّوں کی ٹھنڈی چھاؤں سے اور درخت میں بستے پرندوں کی معصوم چہکار سے ممتا، حفاظت اور بسنے کی ایک کیفیت اُجاگر کرتا ہے۔ ۔ ۔
چھوڑ کر اجنبی زمینوں کو
گھر بناؤں نیا درختوں میں
گوُنجتی ہے ہَوا درختوں میں
گیت ہے شام کا درختوں میں
چاپ کی طرح پتّے گِرتے رہے
کوئی چلتا رہا درختوں میں
میَں پرندوں سے بات کرتی ہوُں
توُ مجھے چھوڑ جا درختوں میں
آئینہ اُن کی غزلوں کے جہان میں ایک جادوئی عمل کے ذریعے ہمزاد ، ہمسفر اور خود اپنی ذات کی پہچان کا باعث بنتا ہے ۔ ۔ ۔
آئینہ رکھ کے سامنے اپنے
تیری حیرانگی سے بات کروُں
آئینے سے مِلا نشان تِرا
خود پہ ہونے لگا گُمان تِرا
آئینوں میں اُچھال دوُں آنکھیں
اور پھر آئینوں سے دوُر رہوُں
بارش شاید اُن کی شعری سلطنت میں دھرتی اور آکاش کے وصل اور سپردگی کی علامت ہے ۔ ۔ ۔
خوابوں کی دہلیز بھگوتی رہتی ہے
کوئی بارش ہے جو ہوتی رہتی ہے
دھنک مٹّی میں گھُلتی جا رہی ہے
وُہ بارش میں پگھلتا جا رہا ہے
ساتھ بارش کے ہَوا کی مانند
کیوں نہ کچھ وقت گزارا جائے
زرد پتّوں کی بارشوں میں پھروُں
اور تِرے راستوں سے دوُر رہوُں
سلطنت قیصر کی غزل میں "پرندے " کا تصّور یا استعارہ جگہ جگہ نمودار ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ انسانی خواہش کا پرندہ ہے، ارمانوں اور آشائوں کا سِمبل ہے، عمر ِ لازوال یا نِروان کا علم بردار ہے، انسانی روُح کی ایک آزاد چھلانگ ۔ ۔ ۔ حالات کی بیڑیوں کو توڑتا ہئوا دیومالائی پرندے فینکس کی طرح اُوپر ہی اُوپر اُٹھتا ہؤا ۔ ۔ ۔
تھا پرندہ حنوُط کمرے میں
ایک پر ہی اُڑان میں آیا
جا چُکا تیرے آسمانوں سے
جو پرندہ تھا اُڑ رہا مجھ میں
سلطنت قیصر کی غزلوں میں سبز رنگ ایک استعارے کے طور پر بار بار ظاہر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سبز رنگ خوشی، نمود، فروغ، تخلیق اور افزائش کے تمام معنی اپنے اندر سمیٹے ہوئے اُن کے شعروں میں جلوہ گر ہو رہا ہو۔
نم ہو اور سبز ہو
ایسا ایک سال ہو
سبز موسم پلٹ نہیں سکتا
پھو ُل کو شاخ میں لگانے سے
سبز شعلوں کو پھوُنک دیتی ہے
بارشوں کی ہَوا درختوں میں
سلطنت قیصر کی غزل میں نئی شبیہیں ہیں، نیا بیانیہ ہے اور نئے استعارے ہیں جو سیدھے دل میں گھر کرتے چلے جاتے ہیں
کچھ سفر ہے تنہائی
کچھ سفر اُداسی ہے
اختصار اور سادگی بھی حُسن کے خواص ہیں جو سلطنت قیصر کی تحریروں میں نمایاں نظر آ رہے ہیں
رنگ پھیکا پڑ گیا
یاد کے لباس کا
میَں ہوُں ایک حادثہ
تیرے آس پاس کا
Dareechah-e-Nigaarish
Toronto, ON
Canada
talat